Skip to main content

30 Verses from Holy Quran that proves the death of Isa (as)

Download These Images in .jpeg HERE

حضرت مسیح ناصری کی آمد ثانی


کامل شریعت قرآن کریم نے یہود و نصاری کے غلط عقائد کی طرف پرزور دلائل سے توجہ دلائی ہے۔ مثلاً یہ کہ جناب مسیح صلیب پر ہرگز نہ مرے تھے کہ ان کو جھوٹا اور لعنتی کہہ کر رد کر دیا جائے۔ اور نہ وہ زندہ ہو کر آسمان پر گئے اور نہ جسم عنصری کے ساتھ زمین کی طرف واپس آئیں گے کیونکہ حضرت مسیح نے واضح کر دیا تھا کہ :

’’آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سو ا اس کے جو آسمان سے اترا یعنی ابن آدم جو آسمان میں ہے‘‘۔                                                                                         (یوحنا باب ۳ آیت ۱۳)
اور فرمایا کہ:’’ میں آسمان سے اترا ہوں‘‘            (یوحنا باب ۶ آیت ۳۸)
’’ ہمارا وطن آسمان میں ہے‘‘۔                            (فلپی باب ۳ آیت ۲۰)

ان بیانات میں حضرت مسیح اپنا اترنا آسمان سے اور چڑھنا اور پھر آسمان میں ہونے کا تمثیلی طورپر اظہار کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے پیارے اور پاک لوگ ہر وقت آسمانی باتیں کرتے ہیں اور آسمان پرہوتے ہیں جیسا کہ (فلپی باب ۳ آیت ۲۰) کا بیان پڑھ چکے ہیں اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعودعلیہ السلام بھی انہیں معنوں میں فرماتے ہیں ؂

ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں
    آسماں پر رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار

پس جناب مسیح ناصریؑ نہ تو اس خاکی جسم کے ساتھ آسمان پرگئے اور نہ دوبارہ زمین پر آنے والے ہیں کیونکہ انجیل ’’متی‘‘ اور’’ یوحنا‘‘ جو ’’ رسول‘‘ کہلاتے ہیں (متی باب ۱۰ آیت ۲ اور ۳) اور حواری اور موقع کے گواہ تھے ان دونوں نے آسمان پر جانے کا قطعاً ذکر نہیں کیا۔ ہاں ’’مرقس ‘‘اور ’’لوقا ‘‘نے ذکر کیا ہے مگر یہ دونوں نہ حواری ، نہ رسول اور نہ موقع کے گواہ تھے ۔ان کا بیان حواریوں کے مقابلہ میں قطعاً قابل توجہ اور لائق قبول نہیں اور انہوں نے بھی لوگوں سے باتیں ’’دریافت‘‘ کرکے لکھی ہیں(لوقا باب ۱ آیت۳)249 نہ کہ کسی الہام سے ۔ اسی لئے امریکہ سے جو اب نئی بائبل (ریوائزڈ سٹینڈرڈ ورشن) نام سے شائع ہوئی ہے اس میں ’’مرقس‘‘ اور ’’ لوقا‘‘ کے آسمان پر جانے کے مضمون کو پرانی اناجیل کے خلاف اور الحاقی ہونے کی وجہ سے اس نئی بائبل سے بالکل خارج کر دیاہے اور اب کسی بھی انجیل میں مسیح کے آسمان پر جانے کا کوئی ثبوت نہیں۔

دراصل مسیح کا آسمان پرجانا اورآنا تمثیلی کلام ہے (جیساکہ یوحنا باب ۳ آیت ۱۳ اور باب ۶ آیت ۳۸ ، فلپی باب ۳ آیت ۲۰ سے عیاں ہے) اورجو ٹھیک حضرت ایلیاہ نبی کی طرح کا ہے جن کے متعلق لکھا ہے کہ ’’ایلیاہ بگولے میں ہوکر آسمان پر جاتا رہا‘‘ (۲۔ سلاطین باب ۲آیت ۱۱) اور پھر آسمان سے واپس آنے کی بھی یہ پیشگوئی تھی کہ:

’’ دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیاہ نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا‘‘۔                                                                           (ملاکی باب ۴ آیت ۵)

ان واضح پیش خبریوں کی بنا پر یہودی حضرت ایلیاہ نبی کی مسیح سے پہلے آمد کے شدت سے منتظر تھے مگر حضرت مسیحؑ نے اس مسئلہ کاحل یوں فرمایا کہ:

’’ ایلیاہ کی روح اور قوت میں‘‘ (لوقا باب ۱ آیت ۱۷)
اس کا مثیل بن کر کسی اور وجود کا آنا مراد ہے جیسا کہ لکھا ہے:

’’شاگردوں نے اس سے پوچھا کہ پھر فقیہ کیوں کہتے ہیں کہ ایلیاہ کا پہلے آنا ضروری ہے ۔ اس نے جواب میں کہا کہ ایلیاہ تو البتہ آ چکا وہ سب کچھ بحال رہے گا لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آ چکا اور اس کو انہوں نے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیااسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔ تب شاگرد سمجھ گئے کہ اس نے ہم سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی بابت کہاہے‘‘۔                                                                                        (متی باب ۱۷ آیات ۱۱ تا ۱۳)

حضرت مسیح کے اس بیان میں دو باتیں واضح کر دی گئی ہیں:۔

اول:۔۔۔ یہ کہ ایلیاہ نبی جو آسمان پرگیا اور دوبارہ آنے والا تھا اس کی بجائے اس کامثیل آنا مراد ہے۔

دوم:۔۔۔ یہ کہ ایلیاہ نبی کے مثیل کو جس طرح نہ پہچان کر دکھ دئے گئے ابن آدم یعنی میں بھی جب دوبارہ آؤں گا تو خودنہیں بلکہ میرا مثیل بن کر کوئی شخص آئے گا اور وہ بھی یوحنا کی طرح دکھ اٹھائے گا۔

کیونکہ حضرت مسیح اس مسئلہ کو بوضاحت اور کھول کھول کر بیان کر چکے ہیں کہ :

۱۔۔۔’’ میں آگے کو دنیا میں نہیں ہونگا‘‘                                (یوحنا ۱۷: ۱۱)

۲۔۔۔ ’’ابن آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا‘‘۔
                                                                                   (متی باب ۱۹ آیت ۲۸)

اب کیا کوئی عیسائی یہ مان سکتا ہے کہ حضرت مسیح جب دو ہزارسال کی عمر میں آئیں گے تو وہ حضرت مریمؑ کے ہاں دوبارہ پیدا ہونگے؟ ہر گزنہیں۔ پس اس سے یہی مراد ہے کہ مسیح کی دوبار ہ آمد بھی ایلیاہ نبی کی طرح بطور مثیل کسی اوروجود میں ہوگی۔

۳۔۔۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے جب تک یہ نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے‘‘۔                                                                                                                                                                    (متی۲۳:۳۹ ، لوقا۱۳:۳۵)

یہ بیان کتناصاف اور واضح اور اس عیسائی عقیدہ کو رد کرتا ہے کہ مسیح دوبارہ خود آئے گا۔ آپ فرماتے ہیں، تم مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے ہاں میرے نام پر کوئی اور شخص ایلیاہ کی طرح میرا مثیل بن کر آئے گا۔ورنہ یہودیوں کو کیاجواب دیا جا سکتا ہے؟ اگر مسیح دوبارہ آ سکتا ہے تو ایلیاہ کو بھی خودآنا چاہئے۔ اگرایلیاہ دوبارہ نہیں آ سکتا تو مسیح بھی دوبارہ قطعاً نہیں آ سکتا۔ بلکہ اس کا مثیل بن کر آپ کے نام پرکوئی اور شخص آنا مراد ہے۔’’ اگر در خانہ کس است حرفے بس است‘‘

پس بائبل کے بیان کردہ حقائق کے پیش نظر ہم عیسائی حضرات کو دعوت دیتے ہیں کہ کامل مذہب اسلام ، نجات کا ذریعہ قرآن اور تمام دنیا کے لئے کامل نمونہ اورکامل تعلیم لے کر آنے والے حضرت محمد مصطفی ﷺ نبیوں کی پیشگوئیوں کے مصداق آ چکے جو حضرت موسیٰ کی مانند نبی صاحب شریعت اورعہد کے رسول ہیں۔ اور عیسائی عقائد کی اصلاح کے لئے پیشگوئیوں کے مطابق خدا نے حضرت مسیح ناصری کا مثیل بنا کر اسلام میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود بنا کر مبعوث فرما دیا ہے آپ نے خدا سے الہام پا کر اعلان کیا کہ :

(الف): ’’مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو آیا ہے‘‘۔                                                                                  (ازالہ اوہام)
(ب): ’’ مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو ‘‘                       (فتح اسلام )
(ج) :اور فرمایا کہ:’’ مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا ہے تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے سو میں صلیب کو توڑنے اور خنزیروں کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔    (فتح اسلام)

حضرت بانی جماعت احمدیہ مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نہ صرف قرآن و حدیث کے معیار وں کی رو سے بلکہ بائبل کے صادق ماموروں کی پہچان کے لئے بیان کردہ معیاروں کی رو سے بھی خدا کی طرف سے صادق و راستباز مامور ہیں۔ ملاحظہ ہو:
اول:۔۔۔ صادق مدعی کے دعویٰ سے پیشتر کی زندگی کا پاکیزہ اور بے عیب و مطہّر ہونا اس کے دعویٰ کی صداقت او ر حقانیت کا زبردست ثبوت ہوتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح ناصریؑ فرماتے ہیں:’’ تم میں سے کون مجھ پر گناہ ثابت کر سکتا ہے‘‘۔         (یوحنا باب ۸ آیت ۴۶)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چیلنج کیا کہ :

’’ تم کوئی عیب ،افتراء یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے‘‘۔                                                  
                                                                                         (تذکرۃ الشہادتین )
چنانچہ کوئی مخالف آپ کی پہلی زندگی پر حرف نہ لا سکا بلکہ مولوی محمد حسین بٹالوی، مولانا میرحسن صاحب سیالکوٹی، مولوی ثناء اللہ امرتسری اور مولوی سراج الدین صاحب ایڈیٹر اخبار ’’زمیندار‘‘ لاہور وغیرہ نے آپ کی پاکیزگی کی تعریف کی ہے۔
دوم:۔۔۔ جناب مسیح ناصریؑ فرماتے ہیں :’’ جو پودا میرے آسمانی باپ نے نہیں لگایا وہ جڑ سے اکھاڑا جائے گا‘‘۔                                       (متی باب ۱۵ آیت۱۳)

اگر بانی جماعت احمدیہ خدا کے صادق و راستباز مامور نہ ہوتے تو کب کے تباہ وبرباد ہو چکے ہوتے کیونکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے ؂


سوم:۔۔۔جو خدا تعالیٰ کی طرف سے صادق مامور مدعی ہو خداتعالیٰ ہر موقع پر اس کی تائید و نصرت اور مدد فرماتا ہے اورکامیاب کرتا ہے جیسا کہ حضرت داؤد ؑ فرماتے ہیں کہ:

’’صادق کھجور کے درخت کی مانندسرسبز ہو گا۔ وہ لبنان کے دیودار کی طرح بڑھیگا‘‘۔
                                                                           (زبور باب۹۲آیات ۱۲،۱۳)

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ۱۸۸۹ء سے اب تک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنا اور دنیا کے ۱۵۳ ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں احمدیوں کا ہو جانا اور آپ کے ماننے والوں میں یہودیوں ، عیسائیوں، ہندو ؤں ، سکھوں اور مسلمانوں کے ۷۲فرقوں میں سے نکل نکل کر نیکی ، تقویٰ اور ایمانی وعملی حالت میں قدم آگے ہی آگے بڑھانے والوں کا ہونا آپ کے دعویٰ کی صداقت کا زبردست ثبوت اور روشن نشان ہے ؂


کبھی نصرت نہیں ملتی درمولیٰ سے گندوں کو

     کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو


چہارم:۔۔۔ آخرمیں ہم عیسائی حضرات کو انجیل کا یہ بیان سنا کر مضمون ختم کرتے ہیں:

’’ملی ایل نامی ایک فریسی نے جو شرع کا معلم اور سب لوگوں میں عزت دار تھا عدالت میں کھڑے ہو کر کہا کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ ان آدمیوں سے کنارہ کرو اور ان سے کچھ کام نہ رکھو ایسا نہ ہو کہ خدا سے بھی لڑنے والے ٹھہرو۔ کیونکہ یہ تدبیر یا کام اگر آدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہو جائے گا لیکن اگر خدا کی طرف سے ہے تو تم ان لوگوں کومغلوب نہیں کر سکو گے‘‘۔

(اعمال باب ۵ آ یت ۳۴ تا ۳۹)


صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں

اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوفِ کردگار

آؤ عیسائیو! ادھر آؤ! نورِ حق دیکھو راہ حق پاؤ

جس قدر خوبیاں ہیں فرقاں میں کہیں انجیل میں تو دکھلاؤ



             سید احمد علی۔ نائب ناظر اصلاح و ارشاد۔ ربوہ                              
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍فروری۱۹۹۸ء تا۱۹؍فروری ۱۹۹۸ء)

Comments

Popular posts from this blog

Aloe and Myrrh: modern day analysis of two ancient herbs

By Arif Khan .. Edited by  Jonathan Ghaffar   Aloe and Myrrh are mentioned in the Gospel as being present immediately after the body of Hadhrat Isa (Jesus) was tended to by Nicodemus and Joseph of Arimathea; the presence of these medicinal plants has often been explained by Christian scholars as being part of an embalming process, whereas Hadhrat Masih Ma’ud (Mirza Ghulam Ahmad) in his treatise  “Masih Hindustan Mein”  (“Jesus in India”) described how they were essential ingredients for an ointment applied to Jesus’ wounds. What role do these herbs play today? Can an exploration of their modern day uses throw light on possible events 2000 years ago? The mention of the herbs appears in the Crucifixion story as it is recorded in the Gospel of John:

30 Verses from Holy Quran that proves the death of Isa (as)

Download These Images in .jpeg HERE

OINTMENT OF JESUS (Aloe and Myrrh)

After the crucifixion, the body of Jesus came into the hands of his disciples Joseph of Arimathea and Nicodemus The Gospel of John records that Nicodemus brought myrrh and aloes 'about a seventy-five pounds in weight' (John 19:39). These plants, particularly aloe plants, are considered medicinal and applied to wounds. It was used extensively in many ancient cultures is used even today to soothe open wounds. The Roman physician Pedanius Dioscrorides (c 75 B.C) recommended aloe for wounds and skin conditions. Alexander the Great's mentor, Aristotle, persuaded him to capture the island of Socotra to harvest the aloe plants for treating wounded soldiers. Interestingly, the medieval near eastern classic textbook of medicine entitled Canon of Medicine by Avicenna mentioned an ointment termed Marhami Isa (Ointment of Jesus). More Info:  List of books containing a mention of Marham-i-Isa  Aloe and Myrrh: modern day analysis of two ancient herbs