Skip to main content

30 Verses from Holy Quran that proves the death of Isa (as)

Download These Images in .jpeg HERE

وفاتِ مسیح کے متعلق غیبی دلائل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
وفاتِ مسیح کے متعلق غیبی دلائل

دوران تبلیغ اکثر داعیان الی اللہ اور مبلغین کا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ بسا اوقات دوران تبلیغ اللہ تعالیٰ فوراً دل میں کوئی نقطے کی بات ڈال دیتا ہے ۔جو بسا اوقات بہت سادہ اور معمولی ہوتی ہے لیکن بہت ہی کارگر اور مسکت ثابت ہوتی ہے ۔خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری روایت کرتے ہیں کہ :
''فلسطین میں ایک موقعہ پر نابلس کے چند استاد تبلیغی گفتگو کے لئے آئے۔احمدیہ دارالتبلیغ میں اس وقت آپ کے علاوہ چند احمدی بزرگ بھی موجود تھے ۔وفات مسیح کا ذکر ہو رہا تھا ۔غیر احمدی عالم نے کہا کہ اگر حضرت مسیح ؈واقعی فوت ہو چکے ہیں تو ان کی قبر کہاں ہے ؟انہیں بتایا گیا کہ تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ ان کی قبر سری نگر ،کشمیر میں ہے ۔کشمیر کا نام سن کر بے اختیار ان میں سے ایک کی زبان سے نکلا کہ اتنی دور!یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟آپ فرمایا کرتے تھے کہ ابھی میں نے انہیں کوئی جواب نہ دیا تھا کہ ہمارے مرحوم بھائی علی القزق جو معمولی تعلیم یافتہ تھے نے جھٹ فرمایا کہ کیا کشمیر آسمان سے بھی دور ہے ؟ یہ برجستہ جواب سن کر وہ غیر احمدی عالم اور باقی سب اساتذہ لاجواب ہو گئے ۔''
''وفات مسیح ہی کے ضمن میں ربوہ ؔکا ایک واقعہ بہت دلچسپ ہے ۔چند غیر احمدی علماء ربوہ میں آئے ۔احمدی علماء کرام سے وفات مسیح کے موضوع پر بہت تفصیلی بات چیت ہوئی ۔متعدد قرآنی آیات سننے پر بھی ان کی تسلّی نہ ہوئی ۔اور بار بار یہ مطالبہ کرتے رہے کہ وفات مسیح پر کوئی واضح آیت بیا ن کی جائے ۔بالآخر ان کے احمدی ساتھی ان کو محترم مولانا احمد خان صاحب نسیم کے پاس ملاقات کے لئے لائے ۔غیر احمدی عالم نے یہاں بھی وہی بات دہرائی کہ وفات مسیح کے بارہ میں کوئی آیت وغیرہ سنائیں ۔مولانا صاحب نے بڑا پُر حکمت انداز اختیار کیا اور بجائے آیت پیش کرنے کے اس سے بڑا سادہ سا سوال کیا کہ کیا تم نے باقی سارے انبیاء کو آیت قرآنی کی وجہ سے فوت شدہ سمجھا ہے جو حضرت عیسیٰ ؈ کے لئے خاص طور پر آیت کا مطالبہ کر رہے ہو ؟۔یہ جواب ایسا تسلّی بخش ثابت ہو ا کہ وہ غیر احمدی عالم کہنے لگا کہ بس بس اب مجھے کسی آیت کی ضرورت نہیں ۔یہ مسئلہ مجھ پر خوب کھل گیا ۔''

(تبلیغی میدان میں تائید الٰہی کے ایمان افروز واقعات صفحہ 19-18)

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Aloe and Myrrh: modern day analysis of two ancient herbs

By Arif Khan .. Edited by  Jonathan Ghaffar   Aloe and Myrrh are mentioned in the Gospel as being present immediately after the body of Hadhrat Isa (Jesus) was tended to by Nicodemus and Joseph of Arimathea; the presence of these medicinal plants has often been explained by Christian scholars as being part of an embalming process, whereas Hadhrat Masih Ma’ud (Mirza Ghulam Ahmad) in his treatise  “Masih Hindustan Mein”  (“Jesus in India”) described how they were essential ingredients for an ointment applied to Jesus’ wounds. What role do these herbs play today? Can an exploration of their modern day uses throw light on possible events 2000 years ago? The mention of the herbs appears in the Crucifixion story as it is recorded in the Gospel of John:

30 Verses from Holy Quran that proves the death of Isa (as)

Download These Images in .jpeg HERE

OINTMENT OF JESUS (Aloe and Myrrh)

After the crucifixion, the body of Jesus came into the hands of his disciples Joseph of Arimathea and Nicodemus The Gospel of John records that Nicodemus brought myrrh and aloes 'about a seventy-five pounds in weight' (John 19:39). These plants, particularly aloe plants, are considered medicinal and applied to wounds. It was used extensively in many ancient cultures is used even today to soothe open wounds. The Roman physician Pedanius Dioscrorides (c 75 B.C) recommended aloe for wounds and skin conditions. Alexander the Great's mentor, Aristotle, persuaded him to capture the island of Socotra to harvest the aloe plants for treating wounded soldiers. Interestingly, the medieval near eastern classic textbook of medicine entitled Canon of Medicine by Avicenna mentioned an ointment termed Marhami Isa (Ointment of Jesus). More Info:  List of books containing a mention of Marham-i-Isa  Aloe and Myrrh: modern day analysis of two ancient herbs