Download These Images in .jpeg HERE
’’واضح ہو کہ قرآن شریف کی نصوص بیّنہ اسی بات پر بصراحت دلالت کررہی ہیں کہ مسیح اپنے اُسی زمانہ میں فوت ہو گیا ہے جس زمانہ میں وہ بنی اسرائیل کے مفسد فرقوں کی اصلاح کے لئے آیا تھا جیسا کہ اللہ جلَّ شَانُہ، فرماتاہے یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْااِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَتِہاب اس جگہ ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اِنّیْ مُتَوَفِّیْکَ پہلے لکھا ہے اور رَافِعُکَ بعد ا س کے بیان فرمایا ہےجس سے ثابت ہوا کہ وفات پہلے ہوئی اور رفع بعد ازوفات ہؤا۔اورپھراَور ثبوت یہ ہے کہ اس پیشگوئی میں اللہ جلَّ شَانُہ، فرماتا ہے کہ میں تیری وفات کے بعد تیرے متبعین کو تیرے مخالفوں پر جو یہودی ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا۔ اب ظاہر ہے اور تمام عیسائی اور مسلمان اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح کے بعد اسلام کے ظہورؔ تک بخوبی پوری ہو گئی کیونکہ خدائے تعالیٰ نے یہودیوں کو اُن لوگوں کی رعیّت اورماتحت کردیا جو عیسائی یا مسلمان ہیں اورآج تک صدہا برسوں سے وہ ماتحت چلے آتے ہیں یہ تو نہیں کہ حضرت مسیح کے نزول کے بعد پھر ماتحت ہوں گے۔ ایسے معنے تو بہ بداہت فاسد ہیں۔‘‘
استدلال از حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ :۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جب یہودیوں نے حضرت مسیح ؑ کی سخت مخالفت کی اور ان کو قتل کرنا چاہا اور قسم قسم کی تکالیف دینا شروع کیں تو اللہ تعالیٰ نے مسیح ناصری سے چار وعدے کئے جو ایک خاص ترتیب میں واقع ہوئے ہیں ۔ یعنی (1)وفات (2)رفع(3)تطہیر(4)غلبہ۔
پس اسی ترتیب کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پہلے حضرت عیسیٰ ؑ کو وفات دی پھر ان کا رفع کیا ۔ پھر قرآن کے ذریعہ یہودیوں نے آپ پر جو الزامات لگائے تھے ان سے آپ کو پاک کیا پھر چوتھے وعدہ کے مطابق مسیح ؑ کے تابعداروں کو یعنی عیسائیوں اور مسلمانوں کو آپ کے منکرین یعنی یہود پر قیامت تک غلبہ دیا جو ترتیب اللہ تعالیٰ نے قرآنی الفاظ کی رکھی ہے اسی کے مطابق جب پچھلے تین وعدے مسلمہ طور پر پورے ہو چکے ہیں تو ضرور ماننا پڑتا ہے کہ پہلاوعدہ جو مسیح کی وفات سے متعلق تھا وہ بھی پورا ہو چکاہے ۔
سوال :۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہاں جو لفظ مُتَوَفِّیْکَ کا آیا ہے اس کا مصدر ہے تَوَفّی اور تَوَفّی کے معنے قبض روح یعنی وفات کے نہیں بلکہ اس کے معنے سارے کا سارا اٹھا لینا کے ہیں۔
اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ قرآن شریف کے 23مقامات میں لفظ توفی قبض روح کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ اول سے آخر تک سارا قرآن پڑھ لیں ۔ کہیں قبض روح کے بغیر اس لفظ کا استعمال نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ ہٹ دھرمی ہے کہ توفّی کا لفظ جب کسی اور انسان، رسول حتّٰی کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے استعمال ہو وہاں اسکے معنے قبض روح کے لئے جائیں اور جب مسیح ناصری ؑ کے لئے استعمال ہو وہاں سارے کا سارا اٹھا لینا مراد لیا جائے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ جو جلیل القدر صحابی ہیں انہوں نے اس کی تشریح کی ہے :۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ جو جلیل القدر صحابی ہیں انہوں نے اس کی تشریح کی ہے :۔
’’قَالَ ابْنُ عَبَّاس مُتَوَفِّیْکَ اَیْ مُمِیتُکَ ۔
(صحیح بخاری کتاب التفسیر باب ما جعل اللہ من بحیرۃ۔)
یعنی مُتَوَفِّیْکَ کے معنے مُمِیتُکَ ہیں یعنی مَیں تجھے وفات دوں گا۔
پھر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اگر مُتَوَفِّیْکَ کا معنٰی سارے کا سارا اٹھا نا ہے تو اس آیت میں رَافِعُکَ کا لفظ مہمل اور بے فائدہ ماننا پڑتا ہے ۔
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے لفظ توفّی پر ایک چیلنج شائع کیا ہے اور اس پر بھاری انعام مقرر کیا ہے ۔ جس کا جواب آج تک دنیا کا کوئی عالم نہیں دے سکا۔ اور وہ یہ ہے :۔
’’جب خدا فاعل ہو اور صرف انسان مفعول بہٖ ہو تو توفّی کے معنے سوائے قبض روح کے ہر گز اور کوئی نہیں ہو سکتے ‘‘
;(ازالہ اوہام ۔روحانی خزائن جلد 3صفحہ 602)
’’جب خدا فاعل ہو اور صرف انسان مفعول بہٖ ہو تو توفّی کے معنے سوائے قبض روح کے ہر گز اور کوئی نہیں ہو سکتے ‘‘
;(ازالہ اوہام ۔روحانی خزائن جلد 3صفحہ 602)
Comments
Post a Comment